جامعة الصالحات، مختصر تعارف

سب سے پہلی وحی جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسولﷺ کو خطاب فرمایا وہ پیغام تھا ’’ پڑھو‘‘اور اس حکم کے ساتھ علم کا حصول تمام مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں طور پر ایک اہم دینی فریضہ قرار پایا ۔ امت مسلمہ نے اس حکم الٰہی کو بجالانے کے لیے مختلف ادارے اور مختلف نصاب تعلیم تیار کیےتاکہ ابنائے امت کواسلامی علوم سے آراستہ کیا جاسکے،اور اس مقصد کے لیےاسلامی مدارس کا ایک پورا نیٹ ورک ملک میں پھیلا دیا ۔ لیکن ان کی زیادہ تر سرگرمیاں لڑکوں کی دینی تعلیم اور ان کی تربیت تک ہی محدود رہیں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کا ان میں کچھ خاص حصہ نہ تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔ عورت ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ ایک نیک اور صالح ماں ایسے معاشرے کو وجود میں لاتی ہے جو دینی حمیت ،اخلاق فاضلہ اور عظیم کردار سے متصف ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ لڑکیوں کا ایک ایسا ادارہ وجود میں آئے جس میں ابتدائی سطح سے اعلی سطح تک ان کو بہترین تعلیم وتربیت فراہم کی جائے ۔لہٰذا 1956ء؁ میں جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے ضلع رامپور اترپردیش میں لڑکیوں کے مدرسے کی بنیاد ڈالی اورمحترم جناب محمد عبدالحیؒ اس کے ذمہ دار قرار پائے۔ اس وقت یہ لڑکیوں کا ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا۔

؍17ستمبر 1972؁ءمیں محترم جناب ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی صدارت میں مرکز جماعت اسلامی ہند رامپورمیں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اورمسلم بچیوں کے اس چھوٹے سے مدرسے کوجسے اب تک ’’بچیوں کا مدرسہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، اعلیٰ دینی تعلیم کےادارے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ اور نومبر ۱۹۷۲؁ء میں عالمیت کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔اس وقت اس کا نام ’’جامعۃ الصالحات‘‘تجویز کیا گیا۔اسی نام سے اس ادارے کو عالمی پہچان ملی۔محترم جناب محمد عبدالحئ کے بعد۱۹۸۷؁ ءمیں محترم جناب توسل حسین صدیقیؒ کو ذمہ داربنایا گیا۔ انہوں نے ۱۹۹۳؁ ءمیں اپنی وفات تک نہایت دلجمعی، خوش اسلوبی اور اخلاص نیت کے ساتھ جامعہ کی خدمت کی۔ ان کے انتقال کے بعد عالم اسلام کے مایہ ناز مصنف ومفکر جناب مولانا محمد یوسف اصلاحی نےجامعہ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں اوران کے خلوص نیت، انتھک محنت اوربے لوث خدمات کے باعث جامعہ ہر طرح سے تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔آج جامعہ اپنی ایک خاص شناخت اور عالمی پہچان رکھتا ہے۔ملک کے ہر گوشے سے مسلمان بچیاں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے’ جامعۃ الصالحات‘ کا رخ کرتی ہیں، یہاں سے عالمہ وفاضلہ بن کر نکلتی ہیں اور اپنے اپنے علاقوں ، بستیوں اور محلوں میںمسلمان بچیوں اور عورتوں میں تعلیم وتربیت اور اصلاح و تبلیغ کا کام انجام دیتی ہیں۔

 د۲۱دسمبر۲۰۲۱؁ء کو مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی اس ادارے کی ۲۹ سال کی طویل مدت تک خدمت کرنےکے بعداپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔مولانا مرحوم کے بعد  مجلس منتظمہ جامعۃ الصالحات نے انہی کے صاحبزادے جناب ڈاکٹر سلمان اسعدصاحب کو شیخ الجامعہ کے عہدے کے لیے منتخب کیاہے ۔اللہ ان سے اس ادارے کی بہترین خدمت لے۔ آمین

اغراض ومقاصد

۱۔  عربی اور اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ عصری اور جدید علوم کی اعلیٰ تعلیم اور قرآن وسنت کی روشنی میں طالبات کی دینی تربیت کا خاص اہتمام کرنا

۲۔  طالبات کے ذہن ودماغ میں اسلامی عقائد کی جڑوں کو مستحکم کرنا

۳۔  عالمیت و فضیلت درجات میں قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم عربی زبان میں دینا

۴۔  جدید علوم، انگریزی  اورسائنس پر خصوصی توجہ

۵۔  ایسی عالمائیں تیار کرنا جو مندرجہ ذیل صفات کی حامل ہوں

الف:  وہ اپنے اپنے علاقے، ماحول اور زمانے میں اسلامی تعلیمات و اخلاق کا اعلیٰ اور مثالی نمونہ ہوں

ب:  وہ حق کی گواہی دینے والی اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے والی ہوں، وہ پراگندہ ماحول کی اصلاح کی فکر کرنے والی ہوں اوراپنےاندربدعات وخرافات اور من گھڑت رسموں کے خاتمے کا جذبہ رکھتی ہوں

ج:  وہ نئی نسل کے لیے مثالی مربی بنیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کرنےاور انہیں اخلاق فاضلہ سے متصف کرنے میں مثالی کردار ادا کرنے والی ہوں۔

د:  وہ علوم دینیہ کی ماہر ہونےکے ساتھ تمام جدید نظریات اور تحریکات سے اور ان کی سرگرمیوں سےپوری طرح واقف ہوں اوراسلام کے خلاف مغربی دانشوروں اور مستشرقین کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی

    Contact Us

    Get in touch with us